انسانی تعلقات اور نیاگرا آبشار

انسانی تعلقات اور نیاگرا آبشار


وہ جولائی 1847 ایک خوشگوار دن تھا۔ آبشار کا سہانا منظر آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث تھا۔ خوبصورت سرسبز مناظر اور بہتے پانی کی آواز نے ماحول خواب ناک بنا دیا تھا۔ لیکن چارلس ایلیٹ کا ذہن کہیں اور مصروف تھا۔ اسے اس آبشار کو تسخیر کرنا تھا۔ اسے نیاگرا آبشارکے آر پار ہوا میں معلق پل بنانا تھا۔ بس اسے یہ فکر لاحق تھی کہ آخر یہ سب کیسے ہو گا۔



بنیادی سوال یہ تھا کہ آٹھ انچ قطر کی موٹی فولادی زنجیروں کو آبشار کے آر پار کیسے پہنچایا جائے۔آبشار کا بہاؤ تیز تھا وہاں کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ اتنی خطرناک جگہ پر کسی انسان کا تیر کر یہ کام کرنابھی ناممکن نظر آتا تھا۔لامحدود لمبائی کی زنجیریں اس کے پاس تھیں نہیں کہ میلوں دور سے گھوم کے آجاتا۔ بہت سے ناممکن خیالات پر سوچنے کے بعد اچانک اس کے ذہن میں ایک بجلی کوندی۔



اگر یہاں سے ایک پتنگ اڑائی جائے اور اس کے دوسرے سرے کو کسی طرح آبشار کے دوسرے کنارے تک پہنچا دیا جائے تو آبشار کے آرپارایک ڈورحاصل ہو جائے گی۔ اس سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ مگر اسے پتنگ بازی بھی تو نہیں آتی تھی۔ اس نے پورے علاقے میں اعلان کروادیا کہ جو بھی سب سے پہلے آبشار کے آرپارایک صحیح سالم ڈور فراہم کرے گا اسے پانچ ڈالر انعام دیا جائے گا۔1847 میں یہ بہت زیادہ انعام تھا۔ علاقے کے لڑکوں کو تو جیسے پتنگ بازی کا ایک بہانہ ہاتھ آ گیا۔



اکثر لڑکے امریکی سائیڈ سے کینیڈا کی طرف پتنگ اڑانے کی کوشش کرتے رہے ۔ مگر15 سالہ ہومان واش کشتی پر بیٹھ کر کینیڈا والی سائیڈ پر چلا گیا اور اس نے وہاں سے امریکہ کی جانب پتنگ اڑانی شروع کر دی۔وہ اپنی پہلی ہی کوشش میں تقریبا کامیاب ہو چلا تھا مگر پتنگ کنارے سے کچھ دور کٹ گئی۔کئی دن تک ایک دوست کے گھر قیام کرنے کے بعد بالآخر ہومان پتنگ کو دوسرے کنارے پر ایک درخت پر اتارنے میں کامیاب ہو گیا۔



یوں اب ان کے پاس آبشار کے آر پار ایک نازک سی ڈور موجود تھی۔چارلس ایلیٹ اور اس کی ٹیم نے جلدی جلدی اس ڈور کے ساتھ ذرا سی موٹی ڈوری باندھی اور اس کو دوسری طرف کھینچ لیا۔ پھر اس کے ساتھ مزید موٹی ڈور ، پھر رسی ، پھر مضبوط رساآر پار پہنچانے میں کامیاب ہو گے۔ اور آخر کار 8 انچ موٹی فولادی زنجیریں آبشار کے آر پار کھینچی جانے لگیں اور جلد ہی ایک مضبوط معلق پل ہوا میں قائم ہو گیا۔



انسانوں کے ایک دوسرے سے تعلقات بھی اسی طرح قائم ہوتے ہیں اور کسی بھی نئے انسانی تعلق میں اس سلسلے کو مدنظر رکھنا مفید ہی نہیں لازمی ہے۔ چنانچہ نیاگرا آبشار کے پل کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔



پہلا نکتہ : کسی بھی نئے انسانی تعلق کی ابتدا ایک انتہائی نازک دھاگے سے ہی شروع ہوتی ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق مضبوط ہوسکتا ہے۔



دوسرا نکتہ: جب یہ دھاگہ دونوںفریقین کے درمیان قائم ہو جاتا ہے تو اس دھاگے پر کچھ ہی وزن لادا جا سکتا ہے۔ اگر اس دھاگے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاد دیا جائے تو یہ وہیں ٹوٹ جائے گا اور مزید تعلق باقی نہیں رہے گا۔



تیسرا نکتہ : نئے قائم شدہ دھاگے پر سب سے بہترین وزن مزید مضبوط دھاگے کا وزن ہے۔ تاکہ تعلق زیادہ بہتر درجے پر چلا جائے۔



چوتھا نکتہ : رشتے کا ایک مطلب دھاگہ بھی ہے اور ہماری گفتگو میں اسی معنوں میں استعمال بھی ہوتا ہے جیسے یہ بڑا نازک رشتہ ہے۔ یا رشتہ ٹوٹ جانا بھی دھاگے کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔



پانچواں نکتہ : تعلق توڑنے کے لیے بھی سب سے آسان ابتدائی دھاگے کو توڑنا ہے۔اگر ہم کسی شخص کے متعلق اندازہ کر چکے ہیں کہ اس سے تعلق رکھنا نقصان دہ ہے تو جتنا جلدی تعلق توڑ دیں گے اتنی آسانی سے ٹوٹ جائے گا۔ جتنی دیر لگے گی دھاگے اتنے ہی مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے اور تعلق توڑنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔



مثال : فرض کریں خورشید صاحب کسی نئے آفس میں گئے ہیں اور انہیں ایک مفت فون کرنا ہے کیونکہ اردگرد فون کی سہولت موجود نہیں۔ اب چونکہ ان کا آفس سیکرٹری سے لنک بہت معمولی ہے تو وہ اس سے یونہی مدد نہیں لے سکتے۔ پہلے کچھ لنک بنانا پڑے گا۔ ابتدائی لنک کے لیے وہ اسے کوئی انتہائی معمولی سا کام کہیں گے جو وہ آسانی سے بغیر سوچے ہی انجام دے سکے۔ مثلا اس سے قلم مانگ سکتے ہیں کہ مجھے ایک نمبر لکھنا ہے۔ قلم استعمال کرنے کے بعد اسے انتہائی شکرئیے سے واپس کر دیں۔



اب خورشید صاحب نے اس انسان کو اپنے مفید ہونے کا تازہ دم کردینے والا بہترین احساس دلا دیا ہے۔ چنانچہ ایک باریک سا دھاگا قائم ہو چکا ہے۔اس دھاگے پر اتنا بوجھ تو ڈالا جا سکتا ہے کہ ایک مفت فون کیا جا سکے لیکن اس دھاگے کی وجہ سے آفس سیکرٹری وہاں نوکری کے لیے خورشید صاحب کی سفارش نہیں کر سکتا۔اس دھاگے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے خورشید صاحب اسے کوئی مفت پاس یا کوپن ٹائپ چیز آفر کر سکتے ہیں کہ یہ ہماری کمپنی کی طرف سے گفٹ ہے۔ اور یوں تعلق کچھ مزید مضبوط ہو سکتا ہے۔



دوسری طرف اگر آفس سیکرٹری کو خورشید صاحب بالکل پسند نہیں آئے تو اسے چاہیے کہ قلم مانگنے کو ہی رد کر دے ورنہ جوں جوں تعلق آگے بڑھتا جائے گا انکار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔


یہی بات کسی حد تک کسی منگنی کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ اگر منگنی کے دوران کسی کو اپنے متوقع ساتھی میں کچھ بنیادی مسائل یا اختلاف نظر آ رہا ہے تو اسے وہیں انکار کر دینا چاہیے ورنہ جوں جوں سفر آگے بڑھتا جائے گا انکار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا ۔

No comments:

Post a Comment